Searching...
Tuesday 6 November 2018

محترم انسان اوراُس کا حال

صدائے فقیر:خالقِ حقیقی سے قربت مخلوقِ خدا سے محبت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسلامُ علیکم ورحمتُ اللہ وبرکاتُہ
آپ کا کیا حال ہے آپ خیریت سے ہیں اللہ ربُّ العزّت آپ کے اور سب مُسلمانوں کے حال کو درست اور بہترین بنائیں آمین اور فقیر سمیت ہر مُسلمان کو اپنے مُستقبل سے زیادہ اپنے حال کو بہتر کرنے کی توفیق عطا فر مائیں آمین 
آج فقیر نے تحریر کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا اُس کا عُنوان ہے 

محترم انسان اور اس کا حال اس عُنوان سے تحریر لکھنے کی خواہش کیوں پیدا ہوئی پہلے وہ پس منظر عرض کرتا ہوں
محترم انسان جہاں بھی رہتا ہو جس دین سے تعلُّق رکھتا ہو پریشانی مُصیبت بیماری اُس کی زندگی کا حصّہ ہے اس کے لئے ایک مثال عرض کرتا ہوں پھول کتنا خوبصورت ہوتا ہے خوشبو بھی دیتا ہے لیکن وہ پیدا اور پلتا بڑھتا کس پہ ہے کانٹوں پہ انسان کی زندگی کو بھی شُعَرا نے ادیبوں نے اکثر و بیشتر پھول سے تشبیہ دیا ہے اور غالباً یہ تشبیہ اس لئے دی جاتی ہے کہ وہ پھول کانٹوں پہ ہی اپنا بچپن لڑکپن اور جوانی یعنی جوبن گزارتا ہے یہاں یہ بات بھی ذھن میں رکھیں کہ وہ پھول جب تک کانٹوں پہ ہے خوبصورت لگتا ہے جیسے ہی آپ اسے کانٹوں سے الگ فرمائیں گے اس کی تازگی اس کی خوشبو آہستہ آہستہ ماند پڑجائے گی
اب شروع کرتے ہیں اصل موضوع ہر انسان کو جو تکالیف مصائب بیماریاں آتی ہے وہ اس سے پریشان ہوتا رہتا ہے حالانکہ یہ سب حالات زندگی کا حُسن ہیں جیسے پھول کانٹوں پہ حسین لگتا ہےاسی بارے میں دوسری عرض یہ ہی کہ زندگی مسائل اور مصائب سے ہی مُشتق ہے فقیر نے اس تحریر سے پہلے مُحترم انسان اور اس کی تخلیق کے عُنوان سے ایک تحریر لکھی تھی اُس کا لنک اوپر دیا ہے وہ بھی پڑھیں سب سے پہلی تکلیف تو مُحترم انسان کو دنیا میں لانے والی عظیم ہستی یعنی والدہ برداشت کرتی ہے اور پھر انسان کے دنیا میں آنے کے بعد کبھی بُخار نزلہ کھانسی اور کبھی کوئی جسمانی عیب انسان کو پریشان کرتا ہے یا پھر حالات غربت تنگدستی وغیرہ یہ حلات ہر انسان کو پیش آتے ہیں ان حالات میں ہر انسان اپنے دین کے مطابق دُعا عبادت یا نادار لوگوں کی مدد وغیرہ کر کے سُکون حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہےاسے سُکون ملتا ہے یا نہیں یہ وہ بہتر بتا سکتا ہے اب بات کرتے ہیں مُحترم مُسلمان انسان کی اس سے آگے بات لکھنے سے پہلے یہ مسئلہ ہمیشہ ذھن نشین فر مالیں کہ اللہ ربُّ العزّت کے ہاں دین صرف اسلام ہے اس کے سوا جتنے ادیان ہیں جیسے یہودی نصرانی مجوسی ہندو بدھ مت یہ سب باطل ادیان ہیں اور دنیا میں آنے والا ہر بچہ فطرۃً اسلام پہ ہی پیدا ہوتا ہے بعد میں اس کے والدین جس دین سے تعلّق رکھتے ہیں اس کو اس دین کے مطابق سکھانا شروع کر دیتے ہیں یہ مسئلہ ہمیشہ آپ کے ذھن میں تازہ رہنا چاہیئے اب جب مسلمان بچہ پیدا ہوتا ہے تو فوراً تبلیغِ دین کی ابتدا ہوجاتی ہے کیسے پہلے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہ کے اسے عملی طور پہ بتایا جاتا ہے کہ آنے والا بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے اس کے بعد کسی بزرگ سے یا گھر کے بڑے افراد میں سے کسی سے اُس بچے کو گھٹی چٹائی جاتی ہے تاکہ زندگی ساری اُس بزرگ یا گھر کے بڑے فرد کی طرح گُزارے اب جیسے جیسے مسلمان انسان بڑھا ہوتا جاتا ہے اس کی جسمانی ساخت عقل ذھن سب کچھ اس کی عُمر کے مُطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے یہاں تک تو بنیادی باتیں عرض ہوئیں جو ہر انسان کے ساتھ حلات پیش آتے ہیں اب مسلمان انسان کا حال کیسا ہونا چاہیئے اس پہ بات کرتے ہیں سب سے پہلے ہرمسلمان کے ذھن میں یہ بات پُختہ ہوتی ہے کہ میرا کوئی مالک ہے خالق ہے اسی کی مرضی سے ساری کائنات چل رہی ہے جب یہ یقین ہر مسلمان کے دل میں پہلے سے ہی ہوتا ہے تو پھر تکالیف پہ مصائب پہ بیماری پہ پریشان کیوں ہوتا ہے اور خود سے ہی اس تکلیف سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ اللہ ربُّ العزت کا قانون ہے کہ کسی انسان کو بھی اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اب آپ سے عرض کرتا ہو ں حال کیسے اچھا ہو حال اچھے سے ہی حالات اچھے ہوتے جاتے ہیں سب سے بڑی غلطی یا بُری عادت یہ بنتی جارہی ہے سب مسلمانوں کو حال سے بے خبری اور مُستقبل کی فکر لاحق رہنے لگی ہے اور یہ غلط وطیرہ ہے زندگی گزارنے کا آپ اور فقیر اپنا حال اچھا کرنے کی کوشش کریں انشااللہ حالات اچھے مستقبل کی طرف لےجانا شروع کردیں گے حال کا معنٰی ہے موجودہ زمانہ اب آج سے دین کے احکام ہیں انہیں پوری طرح عمل میں لانے کی کوشش فر مائیں جیسے نماز روزہ حج زکوٰۃ جہاد وغیرہ یہاں یہ بات سمجھ لیں کہ جہاد کا معنٰی ہے کوشش کرنا اب سب سے پہلی کوشش انسان اپنے آپ پہ ہی کرے گا تو انسان کا حال اچھا ہو گا ہم دوسرے انسان کا حال اچھا کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں پہلے فقیر سے اور آپ سے آپ کے بارے میں سوال ہونا ہے  کہ آپ نے اپنا موجودہ زمانہ کیسے گزارا آپ اور فقیر یہ سمجھتے ہیں کہ حال کسی کی وجہ سے اچھا نہیں بن رہا آپ اچھے بنیں مثلاً آپ دین کو صرف عبادات کے ساتھ مُختص نہ فر مائیں بلکہ دین عالمگیر مذھب ہے اس میں عبادات بھی ہیں مُعاشرت بھی ہے یعنی حُقُُوقُ اللہ بھی ہیں حُقُوقُ العِباد بھی ہیں تجارت کے اصول بھی ہیں آ پ مُختصر سا خاکہ یہ ذھن میں رکھیں کہ ہمارا دین ہمیں صبح اُٹھنے سے لے کر رات سونے تک کے معاملات سکھاتا ہے؛قرآن اور محترم انسان
کوئی مُشکل اللہ تبارک وتعالٰی کی رحمت سے بڑی نہیں ہو سکتی ہمارے اپنے رویّے اور لہجے ہماراحال بہتر نہیں ہونے دیتےاور عبادت نہ کرنے پہ اللہ سے مُعافی مانگتے ہیں کیا کسی انسان کے دل دکھانے پہ اس سے مُعافی مانگتے ہیں نہیں کیوں کہ اُسے ہم گناہ نہیں سمجھتے ہمیشہ ذھن میں رکھیں حُقوُقُ اللہ تو اللہ ربُّ العزت مُعاف فر مادیں گے حُقُوقُ العباد اللہ پاک مُعاف نہیں فر مائیں گے بلکہ اس عبد سے مُعافی مانگنی پڑے گی تو ہمیں اپنا حال اچھابنانے کے لئےحُقُوقُ اللہ اور حُقُوقُ العباد کا پل پل خیال رکھنا ہے حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے اچھا اخلاق میٹھا لہجہ نظر کی وسعت احترامِ انسان نظر میں حیا دل میں خوفِ خدا دماغ میں اچھی اور مُثبت سوچ ان باتوں کا خیال فر ماکے ہم اپنا حال اچھا بناسکتے ہیں اگر حال اچھا بن گیا تو مُستقبل اللہ پاک اپنے فضل سے آپ کے حال کو دیکھتے ہوئے اچھا بنا دیں گے۔دعاؤں میں فقیر کویاد رکھیں ہر کسی کے ساتھ نیکی بھلائی کرتے رہیں اللہ رب العزت آپ کا حامی و ناصر ہو آمین بجاہ سید المرسلین و ختم المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
نوٹ؛حالِ دل اگر بہترین ہے تو یقیناً حالِ ظاہر بھی بہترین ہوگایعنی اگر باطن مُطمئن ہے تو ظاہر بھی مُطمئن ہو گافقیر سمیت ہر انسان نے اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے باطن پہ محنت کرنی ہے کیونکہ باطن تنہائی کے گناہ سے زیادہ خراب ہوتا ہے

mit like if you like the post

0 comments:

Post a Comment

اللہ پاک سب کے لئے آسانیاں پیدا فر مائیں آمین