Searching...

مخارجِ حروف:قرآنِ پاک کے حروف کے نکلنے کی جگہ

جن موقعوں سے حروف اداہوتے ہیںتعارف تجوید

مَخارج مخرج کی جمع ہے مخرج کا معنٰی حرف کے نکلنے کی جگہ

مخارج کل سترہ ہیں
مَخرج نمبر1
جوفِ دَہن-منہ کے اندر کاخلا
اس سے یہ حُروف نکلتے ہیں؛ (و)جب کہ ساکن ہو اور اس سے پہلے پیش ہو جیسے المغضُوبِ میں جو و ہے؛(ی)جب کہ ساکنہ ہو اور اس سے ہلے زیر ہو جیسےنَستَعینُ میں جو ی ہے؛(ا)الف جب کہ ساکن بے جھٹکے ہو اور اس سے پہلے زبر ہو جیسے صِرَاطَ میں جو الف ہے؛
آپ غور فر مائیں اوپر عبارت میں ایک بات لکھی گئی ہے الف جب کہ ساکن بے جھٹکے ہو بے جھٹکے کا کیا معنٰی تجویدِ قرآنِ پاک میں اکیلے الف کو (ا) الف کہتے ہیں جب اس ا پہ کوئی حرکت آجائے یعنی اَ اِ اُ زبر زیر پیش یا کوئی بھی حرکت آجائے تو اسے پھر الف نہیں کہیں گے بلکہ ہمزہ کہیں گے جیسے اَلحَمدُ کے شروع میں جو الف کہلاتا ہے وہ الف نہیں بلکہ ہمزہ ہے اور اسی طرح باس میں جھٹکے والا ہمزہ ہےتجوید کی رُو سے ایسی الف کو ہمیشہ ہمزہ ہی کہا جاتا ہے
مَخرَج نمبر2
اَقصٰی حَلَق-یعنی حلق کا پچھلا حصّہ سینے کی طرف والا
تجوید کی ضرورتاس سے یہ حُروف نکلتے ہیں ء اور ہ یعنی ہمزہ اور ہا
مخرج نمبر3
وَسطِ حَلَق-یعنی حلق کا درمیان والا حصّہ 
اس سے یہ حُروف نکلتے ہیں ع اور ح بے نقطے والے یعنی حرف عین اور حرف  حا
مَخرج نمبر4
اَدنٰی حَلَق-حلق کا وہ حصّہ جو منہ کی طرف والا ہے
اس سے یہ حُروف ادا ہوتے ہیں غ اور خ  نقطے والے یعنی غین اور خا
ابھی جو حُروف مخرج نمبر 2،3،4 کی تحریر میں آئے ہیں یعنی ء،ہ،ع،ح،غ،خ  ان چھے حُروف کے مجموعے کو حُروفِ حلقی کہتے ہیں کیوں کہ یہ چھے حُروف حلق کے مُختلف حصّوں سے ادا ہوتے ہیں
مَخرج نمبر5
لَہات یعنی کوّے کے مُتَّصِل زُُبان کی جڑ-جب اوپر کے تالُو سے ٹکّر کھائے
اس سے ق ادا ہوتا ہے یعنی قاف
مَخرج نمبر6
ق کے مخرج کے مُتَّصِل ہی منہ کی جانب ذرا نیچے ہٹ کر
تجوید کا مقصداس سے ک ادا ہوتا ہے یعنی کاف
مَخرج نمبر7
وَسطِ زُبان اور اس کے مقابِل اوپر کا تا لُو ہے
اس سے یہ حُپروف ادا ہوتے ہیں:ج ش ی وہ ی جو مدّہ نہ ہو ایک ی کا مخرج اوپر ذکر ہو چکا اسے یا ئے مدہ کہتے ہیں یہاں یہ سمجھ لیجیئے کہ ایک واؤ اور ی مدّہ ہوتی ہیں جو ہم اوپر پڑھ چکے یعنی جس ی سے پہلے زیر ہوگی وہ یائے مدّہ ہوگی اور جس واؤ سے پہلے پیش ہو گا وہ واؤ مدّہ ہو گی
ایک ی ایسی ہے جو مُتحرْک ہوتی ہے اور ایک یائے ساکنہ ایسی ہے جس سے پہلے زبر ہوتا ہے اسی طرح ایک واؤ ایسی ہے جس سے پہلے زبر ہوتا ہے ایسی ی اور واؤ کو با الترتیب یائے لین اور واؤلین کہتے ہیں ان تین حُروف یعنی ج ش ی کو حُروفِ شجریہ بھی کہتے ہیں
آگے جن مخارج کاذکر ہونا ہے ان میں سے بعض کا تعلّق دانتوں سے ہو گا اور دانتوں کے نام عربی میں ہیں پہلے اُن کاذکر کر لیتے ہیں آپ نام ذھن نشین فر مالیجئے گا؛کل دانت ہیں بتیس32-سامنے کے چار دانتوں کو ثنایا کہتے ہیں اوپر والے دو دانت کو ثنایا عُلیا نیچے والے دو دانت کو ثنایا سُفلٰی باقی بچے اٹھائیس28ان ثنایا کے پہلُو میں جو چار دانت ان سے ملے ہوئے ہیں ان کو رُباعِیات اور قَواطع کہتے ہیں یعنی اوپر کے سامنے والے دو دانتوں کے ساتھ دونوں طرف والا ایک ایک دانت اسی طرح نیچے کے سامنے والے دودانتوں کے ساتھ دونوں طرف والا ایک ایک دانت اس طرح کل چار ہو گئے رباعیات اور قواطع جن کا نام ہےباقی بچے چوبیس24 ان رباعیات کے ساتھ جو نوک دار چار دانت ملے ہوے ہیں انہیں انیاب اور کواسر کہتے ہیں ترتیب وہی جو اس سے پہلے دانتوں کے بارے میں لکھا گیاباقی بچے بیس 20 ان انیاب کے ساتھ جو چار دانت ہیں انہیں ضواحک کہتے ہیں باقی بچے سولہ 16 ان ضواحک کے پہلو میں بارہ دانت ہیں باالترتیب تین اوپر داہنی طرف تین بائیں طرف اسی طرح تین نیچے داہنی طرف اور تین بائیں طرف ان دانتوں کو طواحن کہتے ہیںباقی بچے چار جو انہیں طواحن کے ساتھ بالکل اخیر میں اوپر نیچے دونوں طرف ایک ایک دانت انہیں نواجز کہتے ہیں ان سب ضواحک طواحن اور نواجزکو اضراس کہتے ہیں جنہیں اردو میں داڑھ کہا جاتا ہے
ذھن نشین کرنے کے لئے اور آسانی سے یاد کر نے کے لئےکسی صاحبِ فن نے انہیں نظم کی صورت میں بیان فر مایا ہے آپ حضرات کے لئے تحریر کردیتا ہوں







نظم دانتوں کے بارے میں
ہے تعداد دانتوں کی کل تیس اور دُو؛ثنایا ہیں چار اور رباعی ہیں دُو دُو
ہیں انیاب چار اور باقی رہے بیس
کہ کہتے ہیں قُرّا اَضراس انہیں کو
ضواحک ہیں چار اورطواحن ہیں بارہ؛نواجز بھی ہیں ان کے بازو میں دُو دُو
مخرج نمبر8
ض کا ہے اور وہ حافہ لِسان یعنی زُبان کی کروٹ داہنی یا بائیں سے نکلتا ہے جب کہ اضراس عُلیا یعنی اوپر کی داڑھ سے لگا دیں بائیں طرف سے آسان ہے دائیں طرف سے مُشکل ہے دونو طرف سے ایک دفعہ میں نکالنا بہت مشکل ہےاس حرف کو حافیہ بھی کہتے ہیں اس کی ادائیگی کے لئے کسی مشّاق قاری سے مشق ضروری ہے اکثر حضرات اسے دال کے مُشابہ پڑھتے ہیں جو کہ غلط ہے
مخرج نمبرآدابِ تلاوت9
ل کا ہے جب زبان کا کنارہ کچھ حصّہ حافہ ثنایا اور رباعی اور انیاب اور ضواحک کے مسوڑھوں سے کس قدر مائل تالُو کی طرف ہوکے ٹکر کھائےخواہ داہنی طرف سے ہو یا بائیں طرف سے داہنی طرف سے آسان ہے دونوں طرف سے ایک دفعہ نکالنا بھی ٹھیک ہے
مخرج نمبر10
ن کا ہےیہ بھی زبان کا کنارہ ہے مگر ل کے مخرج سے کم ہو کریعنی ضاحک کا اس میں کوئی دخل نہیں
مخرج نمبر11
ر کا ہے یہ نون کے مخرج کے قریب ہے مگر اس میں پُشت زبان کا بھی دخل ہےان تین حرفوں کو یعنی ل ن اور  ر کو ذلقیہ اور طرفیہ بھی کہتے ہیں
مخرج نمبر12
ط  د اور ت کا ہےیعنی یہ زبان کی نوک اور ثنایا عُلیا کی جڑان تین حروف کو نِطعیہ کہتے ہیں
مخرج نمبر13
ظ   ذ اور ث کا ہے یہ زبان کی نوک اور ثنایا عُلیا کا سِرا ہےان تین حروف کو لِشویہ کہتے ہیں
مخرج نمبر14
س  ص اور ز کا ہے یہ زبان کا سِرا اور ثنایا سُفلٰی کا کنارہ مع کچھ اتّصال ثنایا عُلیا کے ہے ان حروف کو صفیر بھی کہتے ہیں
مخرج نمبر15
ف کا ہے یہ نیچے کے ہونٹ کا شکم یعنی پیٹ اور ثنایا عُپلیا کا کنارہ ہے
مخرج نمبر16
دونوں ہونٹ ہیں اور ان سے یہ حروف ادا ہوتے ہیں ب  م  اور واؤجب کہ مدّہ نہ ہو اور واؤ مدٗہ کے بارے میں اوپر گزر چکا مگر ان تینوں میں فرق یہ ہے کہ ب ہونٹوں کی تری سے نکلتی ہے اس لئے اس بحری کہتے ہیں اور م ہونٹوں کی خشکی سے نکلتی ہے اس لئے اسےبرّی کہتے ہیں اور واؤ دونوں ہونٹوں کے نا تمام ملنے سے نکلتا ہے  ف  کو اور ان تین حروف کو حروف شفویہ کہتے ہیں
مخرج نمبر 17
خیشوم یعنی ناک کا بانسہ ہے جس سے غنّہ نکلتا ہے
اب اس بات کو بھی جان لیتے ہیں کہ مخرج معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہے جس بھی حرف کا مخرج معلوم کرنا ہو اسے ساکن کر کے اس سے پہلے ہمزہ مُتحرّک لے آئیں پھر اس حرف کی آواز نکالیں جہاں آواز مکمل یا ختم ہو وہی اس حرف کا مخرج ہےدعا فر مائیں اللہ رب العزت سب مسلمانوں کے لئے قرآن تجوید کے ساتھ پڑھنا آسان فر مادیں اور قرآن کو سب مسلمانوں کے دل کی بہار بنا دیں دعاؤں میں یاد رکھیں اللہ پاک آپ کے حامی و ناصر ہوں






0 comments:

Post a Comment

اللہ پاک سب کے لئے آسانیاں پیدا فر مائیں آمین